Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

 ”ارے میری بچی آگئیں تم۔“ دادی نے ہمیشہ کی طرح اس کو لپٹاتے ہوئے محبت سے کہا اور ہاتھ پکڑ کر اپنے قریب ہی بٹھا لیا تھا۔
”بہت یاد آرہی تھی آپ کی یہ بتائیں درد کیسا ہے آپ کی ٹانگوں کا؟“
”ویسا ہی ہے جیسا تھا، بوڑھاپے کی بیماریاں ہیں بیٹی۔“
”چلیں آپ لیٹیں میں آپ کی ٹانگیں دباتی ہوں۔“
”تمہاری یہی خدمتیں تو یاد آتی ہیں، مجھے کام تو وہ ہی اچھا لگتا ہے جو بغیر کہے کیا جائے اپنی خوشی اور محبت سے۔
“ وہ لیٹتے ہوئے اطمینان بھرے لہجے میں گویا ہوئیں وہ ٹانگیں دبانے لگی جب اچانک اس کی نگاہ ٹیبل پر رکھے پھولوں پر پڑی تھی۔
”دادی جان! یہ پھول کون لایا؟“
”وہ آیا تھا شہریار! وہ ہی لایا ہے یہ ڈھیروں پھول۔“
”وہ کیوں آیا تھا؟ اور کیا یہاں بھی آیا تھا، ہمارے روم میں؟“ اس کے لہجے کی ناپسندیدگی محسوس کر کے دادی نے اس کی جانب دیکھ کر کہا۔


”پری……بیٹی! وہ لڑکا بُرا نہیں ہے جو ہم اس کو سمجھتے تھے۔“
”دادی جان سب جاننے کے بعد آپ یہ کہہ رہی ہیں؟ دکھ ہو رہا ہے مجھے آپ کی بات پر آپ ایک گرے ہوئے شخص کی تعریف کر رہی ہیں۔ کیا ہوا ہے آپ کو؟“وہ سخت کبیدگی سے گویا ہوئی۔
”دیکھو بات سمجھنے کی کوشش کیا کرو آتے ہی اب تم منہ پھلا کر مت بیٹھ جانا تم سے زیادہ لوگوں کی پہچان ہے مجھے۔
”جی جی مجھے معلوم ہے کتنی پہچان ہے آپ کو کوئی بھی آکر آپ کی ہاں میں ہاں ملائے گا تھوڑی سی تابعداری وتمیزو تہذیب کا مظاہرہ کرے گا اور آپ اس کے کردار اور اخلاق کی معترف ہو جائیں گی۔“ پری کو سخت اشتعال آرہا تھا دادی کی سادگی اور شیری کی مکاری پر اس نے دادی کو گرفت کرنے کی پلاننگ کی تھی۔
”ہاں! تم تو بڑی علامہ ہو اب عقل تم سے ہی تو لوں گی میں۔
”کچھ بھی ہو دادی جان! وہ شخص اب یہاں نہیں آئے گا۔“
’میرے کان مت کھاؤ، جا کر اپنے باپ کو کہو وہ پابندی لگائے اس پر میں بھلا کس طرح روک ٹوک کر سکتی ہوں۔“
”پاپا کی نہیں وہ آپ کی اجازت سے یہاں تک آیا ہے دادی جان آپ ہی منع کریں گی، بس……“ اس کے انداز میں ضد تھی۔
”عجیب دھونس ہے تمہاری پری! بچوں کو ایسی دھونس اور ضد نہیں کرنی چاہیے، معافی مانگ کر گیا ہے تمہارے فوٹو بنانے پر بار بار معذرت کر رہا تھا کہ غلطی سے وہ حرکت کر بیٹھا تھا۔
“ دادی نے اپنے لہجے کو نرم کیا تھا۔ وہ کچھ نہیں بولی خاموشی سے اپنا کام کرتی رہی اس کا موڈ آف ہوگیا تھا۔ 
”اچھا تم کہتی ہو تو بات کرتی میں شہریار سے ، چلو اب تو خوش ہوجاؤ اور میرے لیے چائے بنا کر لاؤ۔تمہارے پیچھے تو چائے میں سواد نہیں آیا اب تمہارے ہاتھ کی چائے پیوں گی تو قرار ملے گا “وہ کچن میں جانے کے لیے لاؤنج کے قریب سے گزری تو فاخر اس سے مخاطب ہوا تو مجبوراً اس کو بھی رک کر سلام دعا کرنی پڑی ۔
 
”شاید آپ بھی کہیں سے آرہی ہیں ؟“وہ مسکرایا تھا۔ 
”جی! میں نانو کے ہاں گئی ہوئی تھی ، آپ بیٹھیں نا پلیز “
”نہیں! اب میں چلتا ہوں ممی انتظار کر رہی ہیں میرا “رسٹ واچ دیکھتا ہوا وہ کہنے لگا۔ 
”میں ممی کو بلاتی ہوں ، آپ تشریف رکھیں فاخر بھائی “وہ اس سے کہہ کر صباحت کے کمرے کی طرف جارہی تھی معاً عادلہ کے کمرے سے آنے والی آوازیں سن کر رک گئی تھی ۔
 
”کیا ہوا ہے تمہیں عائزہ کیا ہوا ہے تمہارے ساتھ، کیوں خاموش ہو اس قدر کچھ بتاؤ تو سہی“صباحت کی آواز میں پریشانی تھی ۔ 
”اداکاری کر رہی ہے یہ ، اب اس کو معلوم ہے ممی کو پتا چل گیا ہے ، یہ راحیل سے ملنے گئی تھی اور یہاں فاخر بھائی اس سے ملنے آئے ہیں اب خود کو بچانے کے لیے اس کو یہ ڈرامہ تو کرنا ہی ہے ، ہونہہ!“عادلہ کسی ناگن کی طرح پھنکار رہی تھی اور پری کو سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کمرے میں جاکر اطلاع دے، فاخر کے جانے کی یا واپس یہیں سے لوٹ جائے، اندر سے آوازیں بڑھتی جارہی تھیں ۔
 
”چپ کر جاؤد عادلہ! دیکھ رہی ہو یہ شاکڈ ہے “
”شاکڈ ہے گھر تک صحیح سلامت آگئی اور گھر میں آکر شاکڈہوگئی ہے اوہ خدایا! کتنی ٹاپ کی ایکٹریس ہے یہ عائزہ بھی “
”جاکر ذرا فاخر کو تو دیکھو وہ جانے کا کہہ رہا تھا، کولڈ ڈرنک ہی دے دو اس غریب کو، آتی ہوں میں ابھی، کیا سوچے گا وہ کہ مجھے لاؤنج میں چھوڑ کر غائب ہوگئی ہیں۔ “عادلہ کی زبان دھڑا دھڑ طنزوں کے تیر برسارہی تھی جب کہ عادلہ کسی مورت کی مانند کئی بار گری تھی جس سے اس کے کپڑے گندے ہوگئے تھے جسم میں کئی جگہوں پر چوٹوں سے خون رسنے لگا تھا۔
 
بڑی مشکل سے وہ ٹیکسی میں گھر تک پہنچی تھی اور گھر آتے ہی اس کے حوصلے بکھر گئے تھے اس کو ہر طرف خون بہتا ہوا دکھائی دے رہا تھا، اس کے اعصاب شل ہوگئے تھے ۔ 
”ممی! آپ جائیں میں اس کے پاس ہوں “اس نے بے پروائی سے کہا۔ پری نے اندر جانا مناسب نہیں سمجھا وہ کچن میں چلی آئی ۔ 
”میرے جانے کے بعد تم کو خیال رکھنا ہے عائزہ کا وہ کوئی پھر الٹی سیدھی حرکت نہ کرپائے اس سے ہمارے خاندان کی رسوائی و بدنامی ہوگی “طغرل کی آواز اس کی سماعتوں میں گونجی تھی اور ساتھ ہی عائزہ کی دل خراچ چیخ بھی گونجی اور ساتھ بھاگتے قدموں کی آوازیں بھی ۔
 
###
عائزہ کی چیخ نے اس کو بھی کچن سے وہاں جانے پر مجبور کردیا تھا وہ وہاں گئی تو فاخر بھی ساتھ ہی کمرے میں داخل تھا۔ عائزہ بے ہوش قالین پر گری ہوئی تھی صباحت اس پر جھکی ہوئی چہرے کو تھپتھپارہی تھیں۔ عادلہ بھی سراسیمہ نظر آرہی تھی۔ 
”عائزہ کو کیا ہوا آنٹی“فاخراس کے قریب ہی بیٹھے ہوئے گویا ہوا اس کی نظریں باریک بینی سے عائزہ کا جائزہ لے رہی تھیں۔
 
”نامعلوم کیا ہوگیا ہے میری بچی کو ؟ ابھی تو ٹھیک تھی“انہوں نے رونا شروع کردیا۔ 
”ممی! آپ روئیں نہیں میں ڈاکٹر کو کال کرکے بلاتی ہو “پری نے انہیں تسلی دی اور کمرے سے نکل آئی۔ 
”آپ پریشان مت ہو آنٹی! ایسی کوئی ٹینس ہونے والی بات نہیں، ڈاکٹر آئیں گے تو سب ٹھیک ہوجائے گا“ فاخرنے عائزہ کو اٹھا کر بیڈ پر لٹاتے ہوئے کہا۔
 
”اللہ رحم کرے نامعلوم کیا ہوگیا ہے میری بچی کو ؟“صباحت نے عائزہ کے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے رونا شروع کردیا تھا ۔ ماں کو روتا دیکھ کر عادلہ بھی رونے لگی، فاخر نے دونوں کو تسلی دی کہ پری کے ہمراہ پریشان سی دادی بھی کمرے میں داخل ہوئیں۔ 
”بہو! کیا ہوا ہے عائزہ کو ؟“وہ اس کے قریب بیٹھ گئیں۔ 
”پتا نہیں اماں! کیا ہوا کس کی نظر لگ گئی عائزہ ؟“صباحت نے پھر رونا شروع کردیا۔
 
”صباحت! روؤ تو نہیں، ہمت کرو، یہ عادلہ تو بتارہی تھی کہ عائزہ تمہارے ساتھ گئی ہوئی ہے اور اب تم کہہ رہی ہو تم کو معلوم نہیں ہے کہ کیا ہوا ہے “اماں کی بات پر سراسیمہ ہوکر صباحت اور عادلہ نے بے ساختہ فاخر کو دیکھا جو ان کی طرف متوجہ نہیں تھا مگر اماں کی بات وہ سن چکا تھا۔ 
”دادی جان! میں نے کہا تھا ممی عائزہ کو اس کی فرینڈ کے ہاں ڈراپ کرتی ہوئی جائیں گی، شاید آپ نے پوری بات نہیں سنی تھی “عادلہ نے کمال صفائی سے جھوٹ بولا۔
فاخر نے آگے بڑھ کر دادی کو سلام کیا تو دادی کی توجہ یکلخت عادلہ سے ہٹ کر فاخر کی طرف منتقل ہوگئی وہ اس کی خیریت پوچھنے لگیں۔ ڈاکٹر نے آکر اس کا چیک اپ کیا اور ذہنی سکون کا انجکشن لگا کر چلا گیا، صباحت اپنی جان سے بڑھ کر بیٹیوں کو چاہنے والی تھی ، عائزہ کو اس طرح بے حس و حرکت پڑے دیکھ کر ان کی ممتا گھائل ہورہی تھی وہ بے آواز روئے جارہی تھی ۔
 
”رو رو کر کیوں ہلکان ہورہی ہو بہو! ڈاکٹر بتا کر تو گیا ہے پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے، عائزہ کسی خوف کی وجہ سے بے ہوش ہوگئی ہے “اماں جان نے محبت سے ان کو سمجھایا۔ 
”آنٹی! مجھے اجازت دیں ممی انتظار کر رہی ہوں گی “فاخر نے اٹھتے ہوئے کہا وہ غیر معمولی حد تک سنجیدہ لگ رہا تھا۔ 
”چلے جانا بیٹا ! چائے وغیرہ تو لو… پری فاخر بیٹے کے لیے چائے بنالو اور فریج میں دیکھنا کباب وغیرہ رکھیں ہیں وہ فرائی کرلینا “وہ فاخر کے بعد پری سے گویا ہوئیں اور پری سعادت مندی سے فوراً کمرے سے نکل گئی۔
 
”دادی جان! اس تکلف کی ضرورت نہیں ہے “
”تکلف کیسا بیٹا! آخر کو تم سے ہمارا ہر رشتہ ہے “
###
جو کیال تھے نہ قیاس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے 
جو محبتوں کی اساس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے 
جنہیں مانتا ہی نہیں یہ دل وہی لوگ میرے ہیں ہم سفر 
مجھے ہر طرح سے جو راس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے 
ساحر خان نے اس کی آنکھوں سے سارے پردے ایک ساتھ ہٹادیے گئے۔
آئینے میں اس کا ایک ایک گناہ، ہر عکس دکھاڈالا تھا وہ جو سوچتی رہی تھی، کسی کو اس کی سچائی معلوم نہیں ہے کوئی اس کی اصلیت کو نہیں جانتا۔ مگر وہ سب ایک دیوانے کا خواب ثابت ہوا تھا۔ ساحر جو ایک گھاگ شکاری تھا ۔ اس کا کام ہی ایسی اپنی خواہش کی چاہ میں بھٹکی لڑکیوں کا شکار کرنا تھا اور ماہ رخ کو بھی شکار کرنے میں وہ سوفیصد کامیاب رہا تھا۔
ازحد چالاکی و مکاری سے وہ مارخ کے قریب گھیرا تنگ کرتا رہا تھا کہ شیخ حارث کرمانی کے محل میں داخل ہونے کے بعد بھی وہ اس کی نیت پر شک تک نہ کرسکی تھی اور اپنا آپ گنوا کر ہی اس کو معلوم ہوا حد سے بڑھ کر تجاوز کرنے والوں کا انجام کس قدر عبرت ناک ہوتا ہے ۔ 
”رخ! تم ابھی بھی خوش نہیں ہو میرے ساتھ ؟ تم نے دل سے قبول نہیں کیا ہے حارث کرمانی کو ؟“رخ نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا وہ اس کے قریب ہی تھا۔
بڑی محبت بھری نگاہوں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا اس کی انگلیاں رخ کے سنہری گھنیالے بالوں میں الجھ رہی تھیں۔ 
”یہ بات آپ مجھ سے روز کیوں پوچھتے ہیں حارث؟ “ 
”اس لیے کہ آپ روز مجھے خود سے بہت فاصلوں پر نظر آتی ہیں “
”میں تو ہر وقت آپ کے قریب ہوتی ہوں پھر بھی “
”محبت تو دل سے دل ملنے کا نام ہے ماہ رخ! میں محسوس کرتا ہوں میرے ساتھ ہوتے ہوئے بھی آپ میرے ساتھ نہیں ہوتی ہیں “دھیرے دھیرے ان کے نرم لہجے میں کبیدگی بھرنے لگی تھی ۔
 
”تم کیا سچ مچ ساحر سے محبت کرنے لگی تھیں؟ ہوں ایسا ہونا پھر ناممکن بھی نہیں ہے تمہارے کلچر میں یہی ہوتا ہے نکاح کے بول جو مرد بول دیتا ہے وہ عورت اس مرد سے یہ محبت کرتی ہے پھر… “اس کے اندر کا روایتی شکی مرد ابھر کر نکلا تھا وہ جو گزشتہ دو ہفتوں سے اس کی زلفوں کا اسیر بنا ہوا تھا رات دن اس کی محبتوں میں سرشاری کے دن گزار رہا تھا ماہ رخ نے حالات سے سمجھوتہ کرکے ہتھیار ڈال دیے تھے اور اس کی شکست کو حارث کرمانی نے اپنی فتح تسلیم کیا تھا اور دو ہفتوں سے وہ اس کے ساتھ تھا اور ابھی ابھی اس کے اندر شک کے ناگ نے سر اٹھایا اور ڈنک مارنے شروع کردیے تھے ۔
 
”ساحر ایک ایسا آدمی ہے جس کی شکل پر میں تھوکنا بھی پسند نہیں کرتی ، اس کو کوئی اہمیت نہیں دیتی“ بہت پیار سے اس نے اس کے بھدے ہاتھوں کو تھام کر کہا۔ 
”سچ کہہ رہی ہو ؟“وہ اس کی قربت میں موم کی طرح پگھلنے لگا۔ 
”آپ سے جھوٹ کیوں بولوں گی حارث! اب آپ کے سوا میرا ہے کون یہاں؟ میری تو پوری دنیا ہی آپ ہیں “
”اچھی بات کی ہے، بہت اچھی بات کی ہے یہ آپ نے کہ میرے سوا آپ کا کوئی نہیں ہے میں ہی آپ کی دنیا میں ہوں گڈ! ویری گڈ…عورت حسین ہونے کیساتھ ذہین بھی ہو تو سونے پر سہاگہ والی مثل ہوتی ہے ، آج آپ نے ہمارا دل جیت لیا ہے رخ! “وہ اس کا ہاتھ چومتے ہوئے گویا ہوا۔

   1
0 Comments